فاسٹ فوڈ کی تباہ کاریاں
فربہی کے شکار بچے متحرک زندگی سے جو بچپن کا ایک لازمی خاصہ ہے‘ محروم رہتے ہیں اور اس کے نتیجے میں کاہل اور آرام طلب ہوکر رہ جاتے ہیں۔ ان میں فعالیت کا فقدان ہوتا ہے اور احساس محرومی اور احساس کمتری ان کا مقدر بن جاتا ہے۔ مشاہدہ کیا گیا ہے کہ ایک فربہ بچہ عام جسمانی ساخت اور طبعی وزن رکھنے والے بچے کے مقابلے میں کہیں زیادہ توجہ کا طالب ہوتا ہے اور اس کی صحت کی حفاظت بھی والدین کیلئے ایک مستقل مسئلہ بنی رہتی ہے۔ اس مَرضی کیفیت سے پیدا ہونے والی ذہنی اور جسمانی پس اُفتادگی بچوں کی زندگی میں پیچیدگیوں کا عمل آگے بڑھاتی ہے جس کے اثرات بہت دور رَس اور ہمہ گیر ہوتے ہیں۔
موٹے بچے عام طور پر نارمل ساتھیوں کو دوست بنانے سے کتراتے ہیں اس طرح اپنی فطری خواہش کے علی الرغم اپنے ہم عمروں میں کوئی نمایاں مقام حاصل کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ یہ تمام اُمور یکجا ہوکر بچے کو مسائل کے ایک لامتناہی چکر میں لا پھنساتے ہیں اور اس طرح فربہی مسائل میںاضافے کی رفتار تیز کردیتے ہیں۔
موٹاپا فعلیاتی طور پر بھی جسمانی نظام کو نقصان پہنچاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ بڑی عمر میں تو موٹاپا روغنی خلیوں کی جسامت میں اضافے کا نتیجہ ہوتی ہے جب کہ بچوں میں اس کا سبب ان خلیوں کی تعداد میں اضافہ تصور ہوتا ہے جسم کے روغنی خلیے کا پیش رو خلیہ پہلے اپنے اندر چربی یا روغنی مادے کا ذخیرہ کرتا ہے اور پھر پختہ ہونے کے بعد ایک بالغ روغنی خلیے میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یہ عمل عمر کے ابتدائی مرحلے میں زیادہ نمایاں ہوتا ہے جب بچوں کے جسم میں موٹاپا کا عمل جاری ہو تو روغنی خلیوں کی تعداد میں اضافہ تیز تر ہوتا ہے۔ عام حالات میں روغنی خلیوں میں اضافے کا عمل فطری طور پر صرف بلوغ کی عمر میں تیزرفتاری سے ہوتا ہے اور اس عمل کی رفتار میں یہ تیزی لڑکوں کے مقابلے میں لڑکیوں میں زیادہ نمایاں نظر آتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر لڑکیاں بلوغ کی عمر کو پہنچنے پر موٹی ہونے لگتی ہیں۔ روغنی خلیوں کی جسامت کو تو مناسب تدابیر اختیار کرکے کم کیا جاسکتا ہے لیکن ان کی بڑھی ہوئی تعداد میں کمی کرنا ممکن ہی نہیں۔ بلوغ کی عمر میں نمایاں ہونے والی فربہی کو مناسب ورزش اور غذائی احتیاط کے ذریعے روکا جاسکتا ہے لیکن بچوں میں جب ایک بار فربہی کی ابتدا ہوچکی ہو اُس سے نپٹنا ایک مشکل کام ہوتا ہے‘ اس لیے غیرمعمولی فربہ بچہ اپنے لیے اور اپنےوالدین کیلئے ایک مستقل مسئلہ بنا رہتا ہے۔
یہ بات خوش آئند اور امید افزا ہے کہ ابتدائی عمر میں مناسب توجہ سے صورتحال پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ مثلاً ایسے بچوں کو شروع ہی سے اُن کی افتاد طبع کے علی الرغم متحرک رہنے پر آمادہ کیا جائے اور ان کی غذا صرف ایسی چیزوں تک محدود کردی جائے جو شکم سیری کا احساس پیدا کرنے کے باوجود کم حراروں پر مشتمل ہوں۔ اس کے ساتھ ہی بچے کی نفسیاتی تربیت اور اس کے ذہنی رجحانات کی نگہداشت بھی ہوتی رہے۔ یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ علاج کا یہ عمل پابندی‘ دل جمعی اور تسلسل کا طالب ہوتا ہے۔ اگر تسلسل ٹوٹ جائے تو تھوڑے ہی عرصے میں ساری محنت پر پانی پھرجاتا ہے۔ ایک محتاط جائزے سے جو بات سامنے آئی ہے وہ یہ ہے کہ منضبط علاج اگرچہ بہتر نتائج پیدا کرتا ہے لیکن نامعلوم اسباب کی بنا پر زیادہ چھوٹی عمر کے بچوں میں یہ نتائج نسبتاً کم امید افزا ہوتے ہیں۔ جن زیر مطالعہ بچوں کو 12 سے 15، 10 سے 12 اور 6 سے 9 سال کی عمر کے گروہوں میں تقسیم کیا گیا تھا ان میں سے پہلے گروہ کے مقابلے میں دوسرے گروہ اور دوسرے کے مقابلے میں تیسرے گروہ کے نتائج کم تر نمایاں رہے۔
اس ضمن میں ایک دلچسپ حقیقت یہ سامنے آئی ہے کہ برطانیہ میں بیسیویں صدی کی چھٹی دہائی میں پیدا ہونے والے بچوں کا وزن کا اوسط زیادہ رہا۔ اس کے سبب بچوں کی غذائی عادات میں غیرصحت مند رجحانات کا فروغ تھا جن میں منجمد دودھ کا نسبتاً زیادہ استعمال اور کم عمر میں ٹھوس غذا شروع کرادینا سرفہرست ہے۔ اجتماعی صحیح نگہداشت کے ذمے داروں نے یہ تبدیلی محسوس کی اور والدین کو نتائج کی سنگینی سے خبردار کیا جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس کے بعد پیدا ہونے والے بچوں کا وزن اوسطاً کم رہا۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ مریض بچوں پر انفرادی توجہ کے ساتھ اجتماعی تدابیر بھی ناگزیر ہیں۔ والدین کو مناسب وقفوں سے بچوں کاوزن کم کراتے رہنا چاہیے تاکہ قد اور وزن کے مقررہ تناسب میں فرق بروقت معلوم ہوجانے کے بعد مناسب تدابیر اختیار کی جاسکیں۔
پاکستان میں بھی گزشتہ چند دہائیوں سے موٹاپے کا مرض بہت تیزی سے پھیل رہا ہے اور خاص کر بچے اس کا بہت تیزی سے شکار ہورہے ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ ماؤں کی خوراک میں بے احتیاطی ہے۔ اگر مائیں بچے کو اپنا دودھ پلائیں اور بچے جب ٹھوس غذا کھانا شروع کریں تو ان کو فاسٹ فوڈز سے جتنا ہوسکے بچائیں تو بچے موٹاپے کے امراض سے حتی الامکان بچ جائیں گے۔
بچوں کی خوراک کا ہمیشہ ایک ٹائم ٹیبل مقرر کریں اور ان کو صرف ان اوقات میں خوراک دیں۔ پھل اور سبزیاں زیادہ کھلائیں۔بچوں کو صبح کے وقت ہلکی پھلکی ورزش کا عادی بنائیں۔ حاملہ خواتین بھی صرف ڈاکٹر کی ہدایت کے مطابق ہی خوراک استعمال کریں اسے زیادہ خوراک ان کو اور ان کے بچے کوموٹاپے جیسے خطرناک مرض میں مبتلا کرسکتا ہے۔
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں